سگو قوم پر محققانہ تاریخی نظر
سگو قوم پر محققانہ تاریخی نظر
از علامہ فتح نیاز پوری
عرصہ دراز سے میرے ایک قریبی عزیز مجبور کر رہے تھے کہ ان کے ایک دوست کی قوم کے متعلق میں تاریخی منظر دیکھوں۔ جب تقاضا بڑھ گیا تو میں نے پرانی و نئی کتابوں سے اپنی عقل کے مطابق استفادہ کیا جنکی معلومات درج ذیل ہیں۔ امید ہیں کہ انکی معلومات میں اضافہ ہو گا۔
· ما ور النہر جو آتش پرستوں کی ایک تہذیب کا گہوارہ رہ چکا ہے۔ وہاں کئی قومیں آباد تھیں۔ وہاں کے ظالم بادشاہ فیلاس نے اپنی رعایا پر بہت ظلم کئے۔ وہاں سے اسکی رعایا نے تنگ آکر ملک چھوڑنا شروع کر دیا۔ وہاں سے یہ قوم بھاگی جسکا اس وقت کا نام (زردود) تھا۔ یہ واقعہ تقریباً پانچ سو قبل مسیح کا ہے۔ ان کی ایک شاخ یونان گئی کیونکہ قدیم یونان میں حکومت نہیں تھی بلکہ شہری جمہوری حکومتیں تھیں۔ ان لوگوں نے وہاں جا کر اپنی تہذیب اور رواج کی علیحدگی کی وجہ سے ان لوگوں سے علیحدہ اپنا قصبہ آباد کیا۔ اس قصبہ کا نام پیتھین (PATHIEN) پڑ گیا۔ اس لفظ کے معنی کا پتہ نہیں چل سکا۔ یا یہ کنیت تھی یا یہ پرانی یونانی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے بعد یونان کی ایک ریاست کا بادشاہ فیلقوس ہوا تو یہ قوم بھی اس ریاست میں آباد تھی۔ اسکے بعد سکندر بادشاہ ہوا۔ کیونکہ یہ لوگ بڑے بہادا اور جفا کش تھے اسلئے سکندر نے انہیں اپنی فوج میں داخل کر لیا۔ سکندر نے ایران فتح کیا۔ سکندر کا فائدہ یہ تھا کہ جس ملک کو فتح کرتا وہاں اپنے لوگوں کے آباد کرتا تھا۔ اس نے اس قبیلہ زردود کو وہاں آباد کر دیا۔ یہ لوگ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہہ کے عہد میں دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔
· ہمیں مشہور مورخ ال ڈیمز کی کتاب (اقوام) سے پتہ چلتا ہے کہ ایران میں زردود کے نام کی قوم تھی۔ یہ اپنے آپ کو زردود کے نام سے بیان کرتے تھے۔ مگر یونانی انہیں پائیتھان (PATHAIEN) کے نام سے پکارتے تھے۔
· ہمیں مشہور مورخ احمد بن قابیل یمنی کی کتاب ( تاریخ الوسط) سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قوم آذربئجان، خراسان، ہرات، عراق، حلب اور شام میں پھیلی ہوئی تھی۔
· عماد الحسن طوسی نے اپنی کتاب میں محمد غوری کے حملوں کی تفصیل میں ان قبیلوں کا نام بھی لکھا ہے جو اس کے ہمراہ لڑنے کے لئے آئے۔ ان میں یہ لوگ زردود یا پائتھن بھی شامل تھے۔ اس وقت اس قوم کا قبیلہ (سفار) محمد غوری کے ہمراہ آیا۔ محمد غوری نے بھٹندا فتح کیا جو پرتھوی راج کی حکومت میں شامل تھا۔ پرتھوی راج لڑائی کے لئے نکلا۔ محمد غوری نے حریف کی آمد کی خبر سن کر بغیر تیاری کے مقابلے کی تیاری کی تو اسکے فوجی سرداروں نے اسے روکا کہ " حضور ہماری فوج تھکی ہوئی ہے اسلئے ہم تازہ دم ہو کر پھر دشمن سے مقابلہ کریں گے " لیکن محمد غوری نہ مانا۔
· عماد الحسن طوسی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ محمد غوری کو بغیر تیاری جنگ روکنے والوں میں زردود یا پائیتھاں قوم کا سردار جسکا نام ہیبت خان تھا بھی شامل تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اگر ہم نے اسی حالت میں لڑائی لڑی تو ہمیں شکست ہو گی۔ ۱۱۹۱ء میں یہ لڑائی ہوئی جسے نرائین کی پہلی لڑائی کہتے ہیں۔ اس میں محمد غوری کو شکست ہوئی۔ محمد غوری نے ان تمام سرداروں کو جو میدان جنگ سے بھاگے تھے سخت سرائیں دیں۔ ان کا منہ کالا کر کے انکو بازاروں اور گلیوں میں پھرایا گیا۔ تو اس شاہی عتاب کا ہیبت خان بھی شکار ہو گیا۔ محمد غوری نے اس کو بلایا اور بھرے دربار میں (سیاہ گو) کہا اور فرمایا کہ تیری زبان سیاہ ہے لڑائی سے پہلے ہی تو نے ہمیں شکست کی خبر سنا دی تھی اور لڑائی سے پہلے ہی تو نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ہماری تیاری نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں شکست ہو گئی۔ تم نے سپاہیوں کے حوصلے پست کر دئے تھے۔ ہیبت خان نے بہت سی لڑائیوں میں بمعہ اپنی قوم کے محمد غوری کا ساتھ دیا تھا اور اس نے بہت سی جنگی خدمات سر انجام دی تھیں۔ محمد غوری نے اسکی گزشتہ خدمات کا لحاظ کرتے ہوئے اسے اور کوئی سزا نہیں دی بلکہ اس کو اپنی فوج سے بمعہ اپنی قوم کے نکال دیا تھا۔ ہیبت خان نے اپنے قبیلے سمیت اٹک کا رخ کیا۔ اور وہاں سے یہ پنجاب کے اضلاع جھنگ، سرگودھا، میاںوالی ، اٹک ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ڈیرہ غازی خان میں پھیل گئے۔ بعد میں اس قبیلے میں آپس میں لڑائی ہو گئی۔ کچھ لوگ ان میں سے کوئٹہ، قلات اور چاغی وغیرہ کیطرف چلے گئے۔ ان لوگوں نے لوٹ مار اور ڈاکہ زنی شروع کر دی اور انکا ذریعہ معاش بھی یہی تھا۔
· تمام مسلمان قبائل انکو سیاہ گو ہی کی نام سے پکارنے لگے۔ کیونکہ یہ الفاظ بادشاد نے ان کے لئے کہے تھے اس لئے یہ عام ہو گئے۔ بعد میں زبان کی غلطی اور رفتہ رفتہ بگڑ کر یہ لفظ سیاہ گو کی بجائے سگو ہو گیا۔
· ابن بطوطہ نے جب محمد تغلق کے زمانے میں سیاحت کی تو اس نے اپنی کتاب ( سیاحت نامہ) ہند میں لکھا ہے کہ مجھے ہندوستان میں ایسے مسلمان قبائل کے دیکھنے کا تفاق ہوا ہے جن کا ذریعہ معاش اور شغل لوٹ مار اور ڈاکہ زنی ہے۔ اور ان قبائل میں زردود سیاہ گو یا پائیتھان سیاہ گو کا نام بھی لکھتا ہے۔
· انگریز مورخ ولیم لوڈی کی کتاب (شیر شاہ سوری) سے پتہ چلتا ہے کہ اس قوم ( پائیتھان یا زردود سیاہ گو) نے شیر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر بہت سی خدمات سر انجام دی ہیں۔ جب ہمائیوں بھاگ کر ایران جانے لگا تو اس قوم نے اسکا تعاقب کیا تھا۔ ولیم لوڈی انکو بڑا سفاک اور ظالم لکھتا ہے۔ اورنگزیب کے زمانے میں بھی اس قوم نے فوجی خدمات سر انجام دی ہیں۔
· پھر پنجاب میں سکھوں کا عمل دخل ہوا تو اس قوم نے سکھوں کو جنگوں میں بڑی مدد دی۔ تھی۔ سکھوں کی حکومت کے دوران اس قوم کے سردار بڑے بڑے فوجی عہدوں پر فائز تھے۔اس وقت یہ (خان) بھی کہلاتے تھے۔
· حافظ غیاث الدین کی تاریخ کی کتاب (سکھا شاہی) میں اس قوم کے سرداروں محمد خان، علی خان، بہادر خان وغیرہ کا ذکر آتا ہے جو بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔
· سکھوں پر جب رانی جنداں حکمران ہوئی تو اس رانی نے اس قوم کے ساتھ بگاڑ پیدا کی لی اور بعد میں ان لوگوں نے لوٹ مار شروع کر دی۔
· مولوی رسول بخش پانی پتی اپنی تاریخ کی کتاب ( سکھ دور) میں بھی اس قوم کا ذکر کرتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں کہ یہ قوم پٹھان ہے اور خان کہلاتی ہے اور سگو لفظ کو یہ خطاب قرار دیتے ہیں۔ اور وہ لکھتے ہیں کہ یہ قوم جھنگ، سرگودھا، میانوالی، اٹک، ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں آباد ہے۔ اور کہتے ہیں کہ یہ قوم بڑی سفاک اور ظالم ہے۔ انہیوں نے اس قوم کے چند سرداروں کے نام بھی لکھے ہیں۔ مثلاً وریام خان سگو، بہادرخان سگو، یزید خان سگو اور علی خان سگو وغیرہ۔ مولوی صاحب انکے نام کے ساتھ سگو کو بطور خطاب لگاتے ہیں لیکن ان کی ذات کو ظاہر کرنے کے لئے خان لگاتے ہیں۔
· سرکاکی گزرٹ شالع شدہ ۱۸۷۸ء ضلع ڈیرہ اسماعیل خان جو پنجاب پبلک لائبریری میں موجود ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مولوی رسول بخش نے جن سرداروں مثلاً وریام خان سگو، بہادرخان سگو اور علی خان سگو وغیرہ کے نام لکھے ہیں انکی اولاد ضلع میانوالی اور ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پائی جاتی ہے۔ کیونکہ سرکاری گزرٹ شجرہ نسب شالع شدہ ۱۸۷۸ء ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا سلسلہ اگر سرکاری گزرٹ شجرہ نسب ۱۹۱۱ء ضلع میانوالی سے ملایا جائے تو علی خان کی اولاد کا شجرہ یوں ہوتا ہے۔
تصویر دیکھنے کے لیے لنک پر کلک کریں۔

· سرکاری گزرٹ شالع شدہ ۱۸۷۸ء ضلع ڈیرہ اسماعیل میں انکو (خان) لکھا ہے۔ اور ذات کے خانہ نمبر تین میں بلوچ پٹھان لکھا ہوا ہے۔ اور سرکاری گزرٹ شجرہ نسب مطبوعہ ۱۹۱۱ء میاںوالی میں ان ناموں کے ساتھ (سگو) کا لفظ بھی لکھا ہوا ہے۔ مگر ذات کے خانہ نمبر تیں میں انکو ضرف (خان) لکا ہے۔
· یہ دونوں شجرہ ہائے نسب کے سرکاری گزرٹ پنجاب پبلک لائبریری میں موجود ہیں اور بڑے صحت مند مانے جاتے ہیں۔ بڑی محنت اور عرق ریزی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ لفظ سگو ذات نہیں ہے بلکہ ان کی ذات خان لکھی ہوئی ہے لیکن خان کو ہم مان نہیں سکتے اسلئے ان کی ذات پٹھان یا بلوچ ہی ہو سکتی ہے۔ سگو جو لفظ ہے اسکو ہم خطاب کہ سکتے ہیں۔ جو ان کو محمد غوری نے دیا تھا۔ اور بعد میں بگڑتا بگڑتا سگو بن گیا۔اصل میں یہ سیاہ گو ہے۔ یہ لفظ سگو ذات کے لئے غلط مستعمل ہے اور اسکو خطاب کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ٹھیک نہیں ہے بلکہ اصل لفظ سیاہ گو ہے۔ انکی ذات بلوچ یا پٹھان ہو سکتی ہے۔
اس تحقیق میں مندرجہ ذیل کتب سے مواد لیا گیا۔
تاریخ مذہب زرتشت مصنفہ افشیں بیگ
تاریخ الوسط مصنفہ احمد بن قابیل یمنی
تاریخ خاندان غوری مصنفہ عماد الحسن طوسی
اقوم مصنفہ ایل ڈیمز
شیر شاہ سوری مصنفہ ولیم لوڈی
سکھا شاہی مصنفہ حافظ غیاث الدیں بھلواری
سکھ دور مصنفہ مولوی رسول بخش پانی پتی
سرکای گزرٹ شجرہ نسب ۱۸۱۸ءضلع ڈیرہ اسماعیل خان از پنجاب پبلک لائبریری
سرکاری گزرٹ شجرہ نسب ۱۹۱۱ء ضلع میانوالی از پنجاب پبلک لائبریری
سیاحت نامہ ہند مصنفہ ابن بطوطہ
سکندر نامہ مصنفہ امام تبری
مرتبہ
علامہ فتح نیاز پوری، عمادالدین صدیقی، ظہر ہارون (اردو پریس لاہور)
By Khuram Murad Saggu